آج سے اٹھارہ سال پہلے8نومبر2002کو جون ایلیا اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جون کی شاعری کا انداز جداگانہ تھا۔ جون اپنے شعروں میں سوالیہ انداز میں شاعری کرتے تھے اور نہایت منفرد انداز میں اسی سوال میں جواب بھی دیتے تھے۔ ان کی ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہےاور پہلے بھی ٹوئیٹ کرچکا ہوں ﻧﯿﺎ ﺍﮎ ﺭﺷﺘﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﺧﻤﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮨﻮ ﺭﺳﻢِ ﺩﻭﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﺑﺮﭘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﯾﮧ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﺷﻤﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﻭﻓﺎ، ﺍﺧﻼﺹ، ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﺏ ﺍﻥ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﻭ ﺗﻢ. ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻋﮩﺪ ﺟﺐ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺍﯾﻔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﭘﮭﯿﻨﮑﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻓﻘﻂ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭨﮩﻼ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﺟﻮ ﺍﮎ ﻧﺴﻞِ ﻓﺮﻭﻣﺎﯾﮧ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻭﮦ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﺮﻭﺍ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﮨﯿﮟ ﺳﺮِ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺑﮭﻼ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺷﻨﺪﮮ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺳﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ زلیخاۓ عزیزاں بات یہ ہے بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم سن...
Posts
Showing posts from November, 2020
- Get link
- X
- Other Apps

Who is Usman Gohar and His Video with Bank Girl So who is Usman Gohar and his video with girl in bank is going viral. What’s the real story between him and the girl? These are all the questions which are being asked by the people as people are shocked after what they saw. The culprit Usman Gohar has been dismissed from service by the Bank. He cannot be hired by any other bank as per State Bank regulations. Raids are being conducted for his arrest. I’ll request everyone again to protect the identity of the lady. Usman Gohar Manager Credit department Faysal Bank F10 Markaz Islamabad has been arrested & shifted to Police Station. Further legal action being taken. Bank Harassment case update. Police raided his house. The culprit has turned his cell off and his hiding for the last 3 hours. One special team is searching for him. Will update soon. And then he got arrested and is now in custody of Police. n all this the victim should not be forgotten. I hope she gets pr...
مقبرہ بھکر خان
- Get link
- X
- Other Apps

https://youtu.be/TTiXA5CzfRo مقبرہ بھکر خان ۔ میر چاکر اعظم رند کی اولاد میں بلوچ خان منکیرہ اور بھکر کے مشہور سردار گزرے ھیں۔ ان کے ایک فرزند کا نام بھکر خان تھا اور مشہور ھے کہ بلوچ خان نے اپنے بیٹے کے نام پر دریائے سندھ کے کنارے بھکر بسایا۔ اور بھکر خان شیخ راؤ کے قریب اس مقبرہ میں دفن ھیں۔ بلوچ خان کے فرزند کے نام کی وجہ تسمیہ دو حوالوں سے دی جا سکتی ھے کہ یا تو یہ نام سندھ کے بکھر کی نسبت سے رکھا گیا تھا یا یہ بہاولپور کے عباسی حکمرانوں سے تعلقات کی بنا پر چنا گیا کیونکہ بہاولپور کے حکمران خاندان میں نواب بھکر خان بھی مشہور تھے جن کا یہ نام ان کے بزرگوں نے سندھ کےپرا نے شہر کی نسبت سے رکھا تھا۔ موجودہ بھکر شہر کے شیخ راؤ محلہ میں یہ مقبرہ گرنے کے قریب ھے۔ اس کے دو اطراف قبضہ ھو چکا ھے اور اب اس مقبرہ کے اندرونی حصوں کے بارے میں ھم لا علم ھیں۔ چار میناروں میں سے دو کے آثار ابھی تک ھیں جبکہ دو گر چکے ھیں۔ گنبد بھی موجود ھے، حالات کی بے رحمی دیکھئے بھکر کو بسانے والے آج اپنی جاگیر میں بے نام و نشان ھوتے جا رھے ھیں۔ اور ھماری عوام کا یہ حال ھے کہ محراب دیکھ کر بھی رحم نہیں کرتے ا...
Masjid Nawab khan Mankera
- Get link
- X
- Other Apps
1804 ﻣﯿﻦ ﻣﻨﮑﯿﺮﻩ ﮐﮯ ﻗﻌﻠﻪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﺮﺑﻠﻨﺪ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺍﺀﯼ . ﯾﻪ ﻣﺴﺠﺪ ﻗﻌﻠﻪ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻭﺭ ﻗﻌﻠﻪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻏﺮﺑﯽ ﺳﻤﺖ ﻭﺍﻗﻊ ﺗﻬﯽ . ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﻦ ﻭﺿﻮ ﮐﯽ ﺟﮕﻪ ﺑﻨﺎﺀﯼ ﮒﺀﯼ . ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﺑﻬﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺷﯽ ﮐﯽ ﮒﺀﯼ . ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺗﻬﻮﺭﮮ ﺍﭘﺮ ﮐﻠﻤﻪ ﻟﮑﻬﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ . 1821 ﻣﯿﻦ ﺟﺐ ﺭﻧﺠﺖ ﺳﻨﮕﻪ ﻣﻨﮑﯿﺮﻩ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﻪ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻨﮑﯿﺮﻩ ﺳﮯ ﺩﻭ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﺟﻨﻮﺏ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﭨﯿﻠﻪ ﮐﮑﯽ ﻭﺍﻻ ﺳﮯ ﺯﻣﺰﻣﻪ ﺗﻮﭖ ﺳﮯ ﮔﻮﻟﻪ ﺩﺍﻍ ( ﮔﻮﻟﻪ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﻦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮍﺍ ﻫﮯ ) ﮐﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺷﻬﯿﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ . ﺳﮑﻬﻮﻥ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻣﯿﻦ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺍﺻﻄﺒﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ . ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﻦ ﻣﻀﺒﻮﺕ ﺗﻬﯽ ﻟﮑﻦ ﭼﻬﺖ ﮐﯽ ﻟﮑﮍﯼ ﺩﯾﮑﻪ ﺑﻬﺎﻝ ﻧﻪ ﻫﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﻪ ﺳﮯ ﮔﻞ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ ﺟﻮ ﮐﻪ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﭨﻬﯿﮏ ﻫﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﮐﺎﺑﻞ ﺗﻬﯽ . ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﮑﻤﻪ ﺍﺛﺎﺭﻗﺪﯾﻤﻪ ﮐﯽ ﻏﻔﻠﺖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﻡﺀﯼ 2014 ﻣﯿﻦ ﻣﮑﻤﻞ ﺷﻬﯿﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ
founding ceremony of Qaisr-e-Zainab s.a in 1970s
- Get link
- X
- Other Apps

نواب مظفر علی قزلباش (گورنر مغربی پاکستان) کیپٹن (ر) احمد نواز خان شاہانی (وزیر ٹرانسپورٹ) کے ساتھ 1970 کے عشرے میں قیصر زینب کی سنگ بنیاد کے موقع پر Nawab Muzaffar Ali Qazalbash ( Governor West Pakistan) with Capt.(R) Ahmad Nawaz khan Shahani (Minister Transport) on the occussion of founding ceremony of Qaisr-e-Zainab s.a in 1970s
Pandit Chaman Lal Shastri S / O Tallok Chand
- Get link
- X
- Other Apps

نڈت چمن لال شاستری S / O تللوک چند جی۔بھکر گوسونیا مہلے کے رہنے والے تھے جو 1947 میں بھکر سے انڈیا چلے گئے۔تقسیم سے پہلے بھکر میں سنسکرت زبان کا استاد تھا۔ Pandit Chaman Lal Shastri S / O Tallok Chand G. He was a resident of Gosonia Muhalla, who migrated from Bhakkar to India in 1947. He was a teacher of Sanskrit language in Bhakkar before partition.
Historical photos of Bhakkar
- Get link
- X
- Other Apps

دریا خان سے دو شخص اپنے حج کے سفر اغاز کر رہے ہیں 1929 c. 1929: Two Hajj pilgrims proclaim their journey - Darya Khan نواب اف منکیرہ اور نواب اف ڈیرہ کی اولاد Sons of Nawab of Dera Ismail Khan and Nawab of Mankera دریاخان میں سنار کی دکان 1929 Jewelers at Darya Khan display their wares in 1929 کشتی پل ڈیرہ-دریا خان Boats bridge from Darya Khan to D.I.Khan C. 1900 a shop in Bhakkar Photo Credit: page Archive150 1929 میں لی گئ تصویر دریاخان میں موچی کی دکان Cobblers of Darya Khan, District # Bhakkar in year 1929.
ہر بھگوان بٹڑا
- Get link
- X
- Other Apps

ہر بھگوان بٹڑا ضلع بھکر کے ایک چھوٹے شہر نواں جنڈانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے مطابق ان کے شہر جنڈانوالہ میں دو پٹھان خاندان رہتے تھے لیکن ان کے قبیلے کا نام ان کو یاد نہیں ہے۔ وہ دونو خاندان ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ ایک دفعہ ان پٹھانوں کی لڑائی شدت اختیار کر گئی اور ایک پٹھان نے دوسرے کا قتل کر دیا۔جس میں مقتول کے خاندان نے ہربھگوان کے چچا کو گواہ رکھا جس پر ان کو بہت ڈرایا دھمکایا گیا۔ اس وقت ضلع میانوالی تھا اور کیس میانوالی عدالت میں تھا جس میں ہربھگون کے چچا نے اس قتل پر بیان دیا جس کی بنا پر دوسرے خاندان کو سزا ہوئی۔ اس دن کے بعد پٹھان ان کا بہت احترام کرنے لگے۔ 1947 کی تقسیم کے وقت ان پٹھانو نے ہر بھگوان کے خاندان کو اپنے پاس لے گئے اور بزرگ پٹھانو نے جوانوں سے ہر بھگوان کے خاندان کی پوری طرح حفاظت کرنے کو کہا۔ اس وقت ہربھگوان کی عمر 9 سال تھی۔ ساتھ کے علاقوں میں حلات خراب ہوئے جنڈانوالہ میں پنڈت کی جھونپڑی جلا دی گھر جلائے مگر ہر بھگوان کا خاندان محفوظ رہا۔ ملٹری ٹرک ان کو لینے کے لیے آئے جس پر یہ سوار ہو گئے۔ ملٹری ٹرک ا...
شری چھوٹو رام سلوجہ
- Get link
- X
- Other Apps

شری چھوٹو رام سلوجہ ضلع بھکر کے ایک گاوں حیدرآباد تھل میں پیدا ہوے۔ شری چھوٹو رام ایک معمولی گھر سے تعلق رکھتے تھے۔ شری چھوٹو رام نے حیدرآباد تھل میں قلعہ عموانی کے ساتھ دکان بنا رکھی تھی۔ تقسیم کے وقت چھوٹو رام نے حیدرآباد تھل کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ان کے خاندان نے حیدرآباد تھل سے انڈیا جانا بہتر سمجھا مگر چھوٹو رام بضد تھے کہ وہ حیدرآباد نہیں چھوڑے گے لیکن ایک رات کے حملے نے ان کا یہ فیصلہ بدل دیا اور چھوٹو رام اپنے آپ کو حیدرآباد تھل میں غیر محفوض سمجنے لگے۔ ان کے لیے حیدرآباد تھل میں رہنا بہتر نہیں ان کے لیے جتنا جلدی ہو سکے حیدرآباد چھوڑ جانا بہتر تھا۔ رات بھر جاگ کر گزارنی اور حملوں کا دفاع کرنا زخمیوں کی مرہم کرنی۔ اس دوران ان کے لیے ملٹری ٹرک بھیجا گیا۔ شری چھوٹو رام نے دکان سے سامان لے کر ملٹری ٹرک میں سوار ہو گئے۔ حیدرآباد تھل سے ملٹری ٹرک ان کو اٹھارہ ہزاری کمپ میں لے گئے۔ ان کو ملٹری نے رات کو چوکس رہنے کوکہا کہ کسی وقت کوئی حملہ ہو سکتا ہے۔ اس دوران چھوٹو رام نے سامان سب میں تقسیم کر دیا ۔ ملٹری نے ان کو ٹرین سٹیشن لے گئے اور ٹرین پر سوار کر دیا۔ ٹرین بغیر کسی جگ...
پنڈت چہبل داس واٹس ولد پنڈت کنعیا لال واٹس
- Get link
- X
- Other Apps

پنڈت چہبل داس واٹس ولد پنڈت کنعیا لال واٹس ضلع بھکر کے شہر کلورکوٹ میں پیدا ہوئے۔ یہ پنڈت براہمن، قوم ککرا اور گوٹرا واٹس ہے۔ پنڈت گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے چہبل داس کی تعلیم پنڈتوں کی تھی۔ ان کا خاندان کلورکوٹ کے مشہور پنڈت گھرانہ تھا۔ ان کے گھر کا ہندوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بہت احترام کرتے تھے۔ 1947 کی تقسیم کے وقت دنگا فساد میں چہبل داس کے گھر بھی حملہ ہوا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے دن مقامی مسلمان ان کو اپنے پاس لے گئے۔ ملٹری ٹرک کلورکوٹ آنے تک پنڈت مسلمانوں کی حفاظت میں رہے۔ ملٹری ٹرک ان کو لے کر سرگودھا لے گئے جہاں کمپ لگا تھا۔ لیکن سرگودھا سے ٹرین پر سوار ہو کر ان کو لاہور کے راستے انڈیا جانا تھا اور لاہور کے راستے میں حملہ ہونے کا خطرہ تھا۔ کمپ میں کہا گیا کہ راستے میں حملے کا خطرہ اپنے ساتھ اپنے سامان کا بھی خود خیال کریں۔ کنعیا لال نے سب سامان ایک ٹرنک میں لے کر ٹرین پر سوار ہئے اور کنعیا لال خود اس ٹرنک پر بیٹھ کر گئے اس ٹرنک میں سامان میں ان کی پنڈت کی کتابیں بھی تھی۔ ٹرین سرگودھا سے ان کو لے کر لاہور کے راستے سے انڈیا کو چل پڑی۔ راستے میں ٹرین کو روکنے...
ریشمہ
- Get link
- X
- Other Apps

ریشمہ کا خاندان راجھستان میں 1947 سے پہلے رہتا تھا۔ تنگ دستی کے حلات تھے چھوٹی موٹی گائکی کر کے گزارا کرتے تھے۔ راجھستان میں دربار پر درباری راگ گایا کرتے تھے۔ 1947 کی تقسیم کے بعد ریشمہ کا خاندان پاکستان آگیا۔ جس ٹرین پر ان کا خاندان سوار تھا وہ ٹرین کلورکوٹ آ رکی۔ ریشمہ کے خاندان کو کچھ جگہ ملی جس میں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک اور سفر شروع کیا۔ کلورکوٹ کی گلی مہلے میں گا کر کھانے پینے کا کچھ کر لیتے۔ لیکن ان کا جاندان اس تنگ دستی سے تنگ ہو کر بڑے شہروں میں چلے گئے۔ اکثر ان کے خاندان کے لوگ لاہور چلے گئے۔ریشمہ کے گھر کے بھی مالی حلات کچھ اچھے نہ تھے ریشمہ خود بھی بچپن سے گاتی اور کلورکوٹ میں شادی بیاہ میں گا کر کچھ کما لیتی۔ زندگی بہت تھوڑا حصہ کلورکوٹ میں گزارنے کے بعد کلورکوٹ سے چلے گئے۔ ریشمہ کی زندگی تب بدلی جب وہ سیون شریف میں شہباز قلندر کے مزار پر درباری راگ گا رہی تھی کہ لوگوں نے اتنا پسند کیا جس کے بعد وہ ملکی اور عیر ملکی لیجنڈ گلوکارہ سے پہچانی جانے لگی۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بہت سے عیر ملکی اعزاز بھی اپنے نام کیے۔ جب ان کا خاندان کلورکٹ میں تھا تو لوگ ان کو ...
شری پوکھار ریوڑی
- Get link
- X
- Other Apps

شری پوکھار ریوڑی 1892 میں ضلع بھکر کے ایک گاوں ڈھنگانہ میں پیدا ہوئے- ان کا خاندان ڈھنگانہ گاوں میں کھڈی چلاتے تھے اور ان کا روزگار کھڈی سے جڑا ہوا تھا۔ ساتھ تصویر میں ان کے بیٹے بھوونی داس ریوڑی ہیں جو 1946 میں ڈھنگانہ میں پیدا ہوے۔ شری پوکھار کی شادی حیدرآباد تھل سے ہوئی تھی۔ ان کا خاندان "ریوڑی" خاندان ہے۔ شری پوکھار ڈھنگانہ کے نامی گرامی گھر سے تھے کیونکہ یہ اس وقت ڈھنگانہ کے بڑے کاوباری تھے۔ 1947 میں جب تقسیم کی ہوا چلی تو شری پوکھار اس کو معمولی بات سمجنے لگے اسی دوران ان کو پتا چلا کہ کسی گاوں میں لڑائی ہوئی ہے جس میں کچھ نقصان بھی ہوا ہے جس کے بعد شری پوکھار کا خاندان حیدرآباد تھل آ گئے۔ حیدرآباد تھل میں بھی حلات کچھ اچھے نہیں تھے۔ حیدرآباد سے ملٹری ان کو لے کر اٹھارہ ہزاری لے گئی۔ اٹھارہ ہزاری میں دو راتیں گزارنے کے بعد ریلوے سٹیشن سے ٹرین پر سوار ہو کر انڈیا کو چل دیے۔ شری پوکھار نے اپنے بچوں کو بتایا کہ اس ٹرین کے سفر میں کوئی ایسی آنکھ ایسی نہ ہو گی جس میں آنسو نہ ہو۔ حیدرآبادیوں کو وہ ٹرین روہتک لے گئی۔ روہتک ان کو پسند نہ تھا کیونکہ ان کو پانی پت میں جگہ چاہیے...
ہری چند سہگل (زرگر)
- Get link
- X
- Other Apps

ہری چند سہگل (زرگر) 1932 میں ضلع بھکر کے گاوں حیدرآباد تھل میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھر حیدرآباد محلہ زرگر، گنڈا رام کنوے کے ساتھ تھا۔ زرگر خاندان حیدرآباد تھل کے بڑے کاروباری گھرانوں میں سے تھا اور ان کا سونے چاندی کا کام تھا۔ ہری چند کے والد کا نام کھیم چند سہگل (زرگر) تھا۔ اُس وقت حیدرآباد تھل کے بڑے سونار گنڈا رام اوربوسہ رام تھے اور اگر کسی کو مالی امداد کی ضرورت ہوتی تو گنڈا رام کے پاس آتے۔ حیدرآباد میں 1947 سے پہلے بہت اچھے حلات تھے ہندو، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1947 کی تقسیم کی ہوا چلی تو حلات ہی بدل گئے۔ہری چند کا خاندان ایک جگہ جمع ہو گئے اور حیدرآباد سے نکلنے کو بہتر سمجھا۔ آہستہ آہستہ سب نکنے شروع ہو گئے لیکن ہری چند کا گھر حیدرآباد تھل میں ہی رہ گئے۔ جھنگ کمپ میں حیدرآبادیوں نے گورکھہ ملٹری کو بتایا کہ ہمارے کچھ لوگ حیدرآباد سے ابھی تک نہیں پہنچے ان کے خیال میں وہ زندہ نہیں ہو گے۔ گورکھہ ملٹری حیدرآباد آئے تو ہری چند کا گھر سامنے نہیں آیا ڈر کے مارے کہ کہیں کوئی مار نہ دے۔ آخر ہری چند کے مرد و عورت برقع پہنا کر گاڑی میں سوار کرا کے جھنگ، مگھیانہ کمپ ...