ریشمہ

 


ریشمہ کا خاندان راجھستان میں 1947 سے پہلے رہتا تھا۔ تنگ دستی کے حلات تھے چھوٹی موٹی گائکی کر کے گزارا کرتے تھے۔ راجھستان میں دربار پر درباری راگ گایا کرتے تھے۔ 1947 کی تقسیم کے بعد ریشمہ کا خاندان پاکستان آگیا۔ جس ٹرین پر ان کا خاندان سوار تھا وہ ٹرین کلورکوٹ آ رکی۔ ریشمہ کے خاندان کو کچھ جگہ ملی جس میں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک اور سفر شروع کیا۔ کلورکوٹ کی گلی مہلے میں گا کر کھانے پینے کا کچھ کر لیتے۔ لیکن ان کا جاندان اس تنگ دستی سے تنگ ہو کر بڑے شہروں میں چلے گئے۔ اکثر ان کے خاندان کے لوگ لاہور چلے گئے۔ریشمہ کے گھر کے بھی مالی حلات کچھ اچھے نہ تھے ریشمہ خود بھی بچپن سے گاتی اور کلورکوٹ میں شادی بیاہ میں گا کر کچھ کما لیتی۔ زندگی بہت تھوڑا حصہ کلورکوٹ میں گزارنے کے بعد کلورکوٹ سے چلے گئے۔ ریشمہ کی زندگی تب بدلی جب وہ سیون شریف میں شہباز قلندر کے مزار پر درباری راگ گا رہی تھی کہ لوگوں نے اتنا پسند کیا جس کے بعد وہ ملکی اور عیر ملکی لیجنڈ گلوکارہ سے پہچانی جانے لگی۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بہت سے عیر ملکی اعزاز بھی اپنے نام کیے۔ جب ان کا خاندان کلورکٹ میں تھا تو لوگ ان کو "گڈوی والی" کے لقب سے پہچانتے تھے لیکن ان کے مشہور ہو جانے کے بعد بھی لوگ اس بات سے لاعلم تھے کہ ریشمہ کا خاندان کبھی کلورکوٹ میں رہا ہے۔ ایک انٹرویو میں انہو نے بتایا کہ ہجرت کے بعد ایک چھوٹے سے گاوں نما شہر کلورکوٹ میں آئے حلات بہت خراب تھے جس کی وجہ سے وہ بڑے شہروں میں چلے گئے۔

Comments

Popular posts from this blog

Historical photos of Bhakkar

مقبرہ بھکر خان