ہری چند سہگل (زرگر)

 


ہری چند سہگل (زرگر) 1932 میں ضلع بھکر کے گاوں حیدرآباد تھل میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھر حیدرآباد محلہ زرگر، گنڈا رام کنوے کے ساتھ تھا۔ زرگر خاندان حیدرآباد تھل کے بڑے کاروباری گھرانوں میں سے تھا اور ان کا سونے چاندی کا کام تھا۔ ہری چند کے والد کا نام کھیم چند سہگل (زرگر) تھا۔ اُس وقت حیدرآباد تھل کے بڑے سونار گنڈا رام اوربوسہ رام تھے اور اگر کسی کو مالی امداد کی ضرورت ہوتی تو گنڈا رام کے پاس آتے۔ حیدرآباد میں 1947 سے پہلے بہت اچھے حلات تھے ہندو، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1947 کی تقسیم کی ہوا چلی تو حلات ہی بدل گئے۔ہری چند کا خاندان ایک جگہ جمع ہو گئے اور حیدرآباد سے نکلنے کو بہتر سمجھا۔ آہستہ آہستہ سب نکنے شروع ہو گئے لیکن ہری چند کا گھر حیدرآباد تھل میں ہی رہ گئے۔ جھنگ کمپ میں حیدرآبادیوں نے گورکھہ ملٹری کو بتایا کہ ہمارے کچھ لوگ حیدرآباد سے ابھی تک نہیں پہنچے ان کے خیال میں وہ زندہ نہیں ہو گے۔ گورکھہ ملٹری حیدرآباد آئے تو ہری چند کا گھر سامنے نہیں آیا ڈر کے مارے کہ کہیں کوئی مار نہ دے۔ آخر ہری چند کے مرد و عورت برقع پہنا کر گاڑی میں سوار کرا کے جھنگ، مگھیانہ کمپ میں لے گئے۔ اس کمپ میں دو راتیں گزارنے کے بعد ریلوے شٹیشن لے گئے اور ٹرین پر سوار کر کے انڈیا کے لیے روانہ کر دیا۔ ٹرین ان کو لے کر انڈیا روہتک لے گئی جہاں ان کو رہنے کے لیے جگہ دے دی گئی۔ ہری چند نے مزدوری کرنا شروع کر دی اسی دوران حیدرآبادی کمیونٹی نے کھڈی کے لیے روہتک سے پانی پت جانے کا فیصلہ کیا۔ ہری چند کے گھر بھی حیدرآبادیوں کے ساتھ پانی پت چلے گئے۔ ہری چند اور ان کا خاندان شروع میں بہت تنگ ہوا کیونکہ پانی پت کا رہن سہن زبان بلکل الگ تھی۔ ہری چند کے والد نے پانی پت میں کھڈی لگائی۔ کھیم چند سے ہری چند تک ان کی دس کھڈیا ہو گئیں اور اب ان کی فکٹری ہیں۔ کھیم چند حیدآباد میں سونے کا کام کرتے تھے سونا منکیرہ سے لے کر آتے تھے۔ ان کے باقی رشتےدار ماہنی، کارلووالا، نواں کوٹ اور منکیرہ میں رہتے تھے۔ ہری چند کی والدہ اور کھیم چند کی بیگم چھینہ والا کی تھی۔ ان کے مطابق تقسیم کے وقت ہندو سکھ نے بہت سامان وہی دفن کر دیا تھا جس میں زیادہ لوگوں نے قلعہ عموانی میں دفن کیا۔ ان کے خیال یہ تھا کہ حلات ٹھیک ہو جائیں گے تو وہ واپس آجائیں گے مگر حیدرآباد تھل سے نکلنے کے بعد ان کو علم ہو گیا تھا ک ہم اب کبھی واپس نہیں آئے گے۔ حیدرآباد تھل میں ہر گھر میں کھڈی تھی اور جو یہاں سے انڈیا گئے ان کی اب کھڈی کے بعد فکٹر اور ملیں ہیں لیکن حیدرآباد تھل آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Historical photos of Bhakkar

مقبرہ بھکر خان